محمدشارب ضیاء رحمانی
لفظ قربانی اپنے مفہوم کے تناظرمیں بے پناہ وسعت رکھتاہے۔جان ومال اوقات
ولمحات ،آرزوؤں اور خواہشات کی قربانی دے کر ہی جاہ ومنصب اور خوشحالی کا
مزہ حاصل ہوسکتاہے ۔قربانی اسلام کی روح اوراس کا مطالبہ ہے ۔یہ درحقیقت
ایثارِ نفس کے اظہارکا ایک محسوس طریقہ ہے جو گوشت کھانے ،کھلانے اور خون
بہانے کانام نہیں ، اپنے اندر جذبۂ ایثار کی روح بیدار کرنے کا نام ہے اور
اس مزاج کو پیدا کرنے کا نام ہے جس کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کی تعریف کرتے
ہوئے فرمایاگیا یؤثرون علیٰ انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ۔ قربانی کا مقصد یہ
ہے کہ آدمی اپنے مفاد اور اغراض کو مفاد عامہ پرقربان کردے۔دوسروں کی
ضروریات کو ،اپنی ضروریات پر مقدم رکھے۔اوراپنے پورے وجود کو رضائے الٰہی
کی خاطر فناکردے۔سرتسلیم خم ہے جومزاج یارمیں آئے۔
آنے والے دنوں میں جس قربانی کے فریضہ کوامت اداکرنے جارہی ہے، کے ذریعہ
امت سے یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ ایک صاحب ایمان کوخداکے حکم سے ایسی وابستگی
ہوکہ پوری زندگی سراسرقربانی ہوجائے۔صاحب ایمان کی جان ومال توجنت کے بدلہ
میں خریدی ہوئی ہے،اسے ہروقت یہ مطمح نظررہے کہ جوکچھ بھی ہے،اللہ کاہے،اس
کے اوقات ولمحات اورزندگی کی تمام نعمتیں اس کے حکم کے آگے قربان ہوں۔لفظ
اسلام اورمسلم اسی مفہوم کاتقاضہ کرتاہے ۔اسی لئے حضرت ابراہیم کوقرآن کریم
میں’’حنیفامسلما‘‘کہاگیااورخودخانہ کعبہ کی تعمیرسے فراغت کے بعدحضرت
ابراہیم نے جودعاء مانگی ہے اس میں خودکو،حضرت اسمٰعیل کواورراہ راست
پرچلنے والی آنے والی نسل کو مسلم بنائے رکھنے کی خداوندقدوس سے درخواست کی
ہے۔
حقوق العباداوراخلاقیات کی طرف اسلام نے باربارتوجہ دلائی ہے ۔لہٰذاقربانی
کامزاج پیداکرکے مفاد پرستی ،خود غرضی،بزدلی جیسی بیماریاں ،جوامت کے لئے
ناسورکی حیثیت رکھتی ہیں ،ان بیماریوں کا سد باب کرنامقصدہے ۔نیزحکم الٰہی
کی ادائیگی کیلئے ہمہ وقت تیاررہناچاہئے۔چاہے اس کیلئے اپنے مفادات اورمزاج
کی کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔الفت میں برابرہے وفاہوکہ جفاہو
ہرچیزمیں لذت ہے گردل میں مزاہو۔انسان کی ساری مصروفیات کامحورصرف اورصرف
رضائے الٰہی اورخداکی خوشنودی ہو،ان احکامات کوبوجھ سمجھ کرنہیں بلکہ
وارفتگی وسرورکے ساتھ انجام دیاجائے۔اسی براہیمی جذبہ کو پیداکرنے کے لئے
قربا نی کا حکم دیا گیا ،تاکہ اطاعت وفرمانبرداری کی عادت
پیداہونیزمسلمانوں میں دوسروں کے لئے بھی جینے کا مزاج پیداہوجائے۔حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر اگرنگاہ ڈالی جائے تویہی معلوم ہوگا کہ ان
کی پوری حیات ہی قربانی سے مزین ہے ۔خداوندقدوس کی محبت میں انہو ں نے
اپنے وجود کو ہی فنا کردیا تھا ،آتش پرست گھرانے میں اپنے مزاج کی قربانی
دیتے رہے۔گھرکوالوداع کہا،آتش نمرودمیں کودنے کامرحلہ آیاتوعقل وہاں لب بام
رہ گئی۔اسی مرحلہ کواقبال نے عشق سے تعبیرکیاہے،بے خطرکودپڑاآتش نمرودمیں
عشق عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی۔
وہاں وہی سچاعشق کارفرماتھاجومطلوب ہے امت محمدیہ سے۔الغرض حضرت ابراہیم کی
پوری زندگی اسی عشق کے اردگردتھی ۔ لہٰذااقبال کے کلام میں جہاں بھی عشق
کالفظ آیاہے وہاں یہی مفہوم ہے۔کہ مسلمان اپنارشتہ خدااوررسول سے اس
قدرجوڑلے اوروارفتگی ومحبت کے اس مقام پرپہونچ جائے جہاں اپنے اغراض
ومقاصدکچھ بھی یادنہ رہیں۔اقبال نے دوسری جگہ اس مفہوم کی یوں وضاحت کی
’’صدق خلیل بھی ہے عشق صبرحسین بھی ہے عشق معرکہ وجودمیں بدروحنین بھی
ہے عشق‘‘۔اوریہی عشق ،خودی اوراستحکام خودی کیلئے معاون ہے۔جواقبال کی
شاعری کامحورہے۔
آتش نمرودمیں کودنے کامرحلہ ہویاپھر80برس تک اولادسے محروم رہ کرلخت
جگراوربیوی کو بے آب وگیاہ میدان میں چھوڑکرجانے کاحضرت ابراہیم تمام مراحل
میں ثابت قدم رہے۔اورحدتواس وقت ہوگئی جب اس لخت جگر،بڑھاپے کی اکلوتی
اولادکے گلے پرچھری پھیردینے کامرحلہ آگیا۔ایک امتحان تووہ ہوتاہے جب
اسٹوڈنٹ کہے،’’پرچہ بڑاسخت بناتھا‘‘۔لیکن وہ امتحان کیساہوگاکہ ممتحن کہے
’’ان ھٰذالھوالبلٰوء المبین ‘‘۔یقینابڑی سخت آزمائش تھی۔اورفرزندبھی کتنے
کامل کہ اپنے نورنبوت سے سمجھ گئے کہ یہ
خواب کاتذکرہ نہیں ہورہاہے بلکہ
حکم الہٰی ہے۔اسی لئے فرمایا’’یابت افعل ماتومرستجدنی ان شاء اللہ من
الصٰبرین۔آخرکارحکم الہٰی کی تعمیل کاوقت آیا۔خداکواپنے محبوب کی گردن
کاٹنامقصودنہیں تھاصرف اورصرف امتحان مطلوب تھا۔چنانچہ نداآئی’’یٰابراھیم
قدصدقت الرویااناکذالک نجزی المحسنین۔اے ابراہیم آپ نے اپناخواب سچ
کردکھایاہم نیکوکاروں کوایساہی بدلہ دیاکرتے ہیں۔ ان تمام آزمائشوں میں
سوکے سونمبرلانے والے اپنے برگزیدہ نبی کواللہ نے زندگی جاوید سے
نوازدیااور قیامت تک ،ان کی اوران کے گھروالوں کی اداؤں کی بھی حفاظت
فرمائی۔چنانچہ صفامروہ پرعاشقانہ دوڑ،منیٰ میں رمی جمرات یہ سب تواسی
گھرانہ کی یادگارہیں جوحج کالازمہ حصہ ہیں۔خداوندقدوس نے اپنے خلیل کی دعاء
اس طرح قبول فرمائی کہ انبیاء کرام کاسلسلہ ان کی نسل سے جاری
ہوگیا۔اورآخری نبی حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی آپ کی ایک عظیم
دعاء قبول ہوئی۔ ربناوابعث فیھم رسولامنھم یتلوعلیھم آیاتک ویعلمھم
الکتاب والحکمۃویزکیھم،پروردگار!میری اولادمیں ایک ایسارسول مبعوث
فرماجوتیری آیات کی تلاوت کرے،کتاب وحکمت کی تعلیم دے اورلوگوں کے قلوب
کاتزکیہ کرے۔ساتھ ہی واضح طورپرانہیں آئیڈیل بناکربتادیاومن یرغب عن ملۃ
ابراہیم الامن سفہ نفسہ ولقداصطفینٰہ فی الدنیاوانہٗ فی الاٰخرۃ لمن
الصٰلحین۔اپنے آپ میں بے وقوف ہی طریقہ ابراہیمی سے اعراض کرنے والاہے۔ہم
نے انہیں دنیامیں بھی اپنا محبوب بنارکھاتھااوروہ آخرت میں بھی صالحین میں
سے ہیں۔
حضرت ابراہیم کویہ سب کچھ اس لئے ملاکہ انہوں نے کبھی اپنے مفاد کو ترجیح
نہیں دی بلکہ اپنے پورے وجود کو ہی خداتعالیٰ کے احکام کے سامنے جھکادیاتھا
۔اذقال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العٰلمین :جب اس کے پروردگارنے اس سے
کہا جھک جا،تو اس نے کہا میں جھک گیا رب العٰلمین کے لئے ۔اور پوری زندگی
اس کا عملی ثبوت بھی دیتے رہے۔قرآن نے ان کی حیثیت عرفی کوواضح کیا ماکان
ابراھیم یھودیاولانصرانیاولٰکن کان حنیفامسلماََوماکان من المشرکین۔اس آیت
کریمہ میں یہود،نصاریٰ اورمشرکین جوحضرت ابراہیم سے نسبت کادم بھرتے
ہیں،سبھوں کی نسبت نفی کردیاوربتادیاکہ ھٰذالنبی(محمدﷺ)اوران پرایمان لانے
والے حضرت ابراہیم سے نسبت میں قریب ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کا جذبۂ ایمانی سرد ہو گیا ہے ان کی ابراہیمی
اور محمدی شان ختم ہوگئی ہے ۔انہوں نے اپنی خواہشات اوراپنے جذبات کے آگے
،دین کو قربان کرناشروع کردیاہے ۔دوسروں کے لئے قربان ہونے اور قربانی دینے
کاجوسبق ہمیں دیا گیا تھا اسے ہم نے بھلادیااور’’ قربانی‘‘ اسی کو سمجھنے
لگے کہ اچھے سے اچھے اورگراں قیمت جانور بطور تفاخر خریدیں جائیں اوریہ
اشتہار دلوایا جائے کہ فلاں صاحب نے اتنے مہنگے جانور خریدے ،یہ اسلام کی
روح کے منافی ہے اور اس کی تعلیمات کے ساتھ کھلواڑہے۔اللہ کے نزدیک گوشت
اور خون نہیں پہونچتے بلکہ وہ اخلاص اور وہ جذ بہ پہونچتاہے جس کے ساتھ
قربانی کی گئی ہے’’لن ینال اللہ لحومھا ولادماءھا ولکن ینالہ التقویٰ
منکم‘‘ ۔ ساتھ ساتھ ہما رے سامنے آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی سامنے رہنا
چاہئے’’انماالاعمال بالنیات،اعمال کا دارومدارنیت پرہے ‘‘ظاہر ہے جب نیت وہ
نہیں ،جواس قربانی کا مقصد ہے تو اس کے مثبت نتائج کیسے سامنے آسکیں گے۔
اور جب ہم نے اس کے مقصد کو بھلایااور خدا کے احکام کے ساتھ لاپروائی برتی
تواللہ نے بھی ہماری قربانی لینی شروع کردی ۔ہماری جان اورہمارے مال کو
غیروں کے لئے سستاکردیا ۔ اقبال نے تو اسی کا رونا رویاہے۔ رگوں میں وہ لہو
باقی نہیں ہے وہ دل ،وہ آرزو باقی نہیں ہے نمازوروزہ وقربانی وحج یہ
سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی طرف سے دی گئی قربانی
اوران کی پوری زندگی،جوقربانی اوراتباع احکام خداوندی سے عبارت ہے، ان کی
روحانی اولاد’’امت مسلمہ‘‘سے اسی جذبہ کے پیداکرنے کامطالبہ کرتی ہے جواس
کامقصد ہے ۔اسی ذہن سازی کے لئے سال میں ایک مرتبہ،امت کو دیئے گئے اسباق
کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے ۔ضرورت ہے براہیمی اولوالعزمی کی مومن کو محبت
چاہتی ہے ،پھر وہی بیٹے کی قربانی ۔
sharibziarahmani@gmail.com
08750258097